تصویر

کیا توہین تب نہیں ہوتی

کیا توہین تب نہیں ہوتی

جب یہ ماں ڈالروں کے عوض بیچ آتے ہیں

جب ظلم پے چپ ساد لتیے ہیں 

کیا توہین تب نہیں ہوتی

جب دشمن کے آگے ہتھیار ڈال آتے ہیں 

فخر سے اپنوں کی فحش فلم بناتے ہیں

کیا توہین تب نہیں ہوتی

جب ظلم پے عدالتیں خاموش تماشائی ہوں 

قاضی مال بناتے ہوں انصاف بیچتے ہوں

کیا توہین تب نہیں ہوتی

جب فوج اپنوں پہ چڑھ دوڑی ہو

دشمن کے خوف سے بھگوڑی ہو

کیا توہین تب نہیں ہوتی

جب باج سبیل جسکا دھندہ ہو

حرام خور جرنیلوں جیسا بندہ ہو

کیا توہین تب نہیں ہوتی

جب فرض پے غرض حاوی ہو

جب احتساب سے ہر کوئی باغی ہو

کیا توہین تب نہیں ہوتی

کیا زبان بندی سے حا لات بدلیں گے

کیا قیدی کے کبھی پھر خیالات بدلیں گے

کیا توہین تب نہیں ہوتی

کیا زبان بندی عزت بڑھتی ہے 

دل افسردہ

میں فاصلے طے کر چکا تنہا اب تو
ہمراہی راستے کر چکا جدا اب تو
کوئی آس کوئی امید ملنے کی باقی نہیں
ہوں دل کو بہت یہ سمجھا چکا اب تو
تو نے اپنی ہی منائی ہر بات ہر پل
نہیں ماننی میری بات سدا اب تو
دل زخم زخم آبلہ پا ہو جیسے کوئی
رستے ہیں باتوں کے زخم تازہ اب تو
اب دل میں تری محبت کروٹ نہیں لیتی
ہوں دل سے درد محبت مٹا چکا اب تو
ایسا لگتا ہے ہم غیر ہیں انجان ہیں
ہر رشتہ ہی ختم سا ہوتا جاتا اب تو
دانش بھی خاموش راہوں کا مسافر ہے
تنہائی کی لیں گے ہم عادت بنا اب تو

چہرے

چہرے پہ چہرے سجائے ہوئے لوگ
اندرون تاریک تر کو چھپائے ہوئے لوگ

ہمسفر ہیں مگر دل کہیں اور لگائے ہوئے لوگ
دانش کیا سمجھے غیروں کے سمجھائے ہوئے لوگ

اعتبار

اک ستم یہ بھی ہے دلوں میں فاصلے بڑھ گئے ہیں

اب تو جدائی کے لیے ہمارے حوصلے بڑھ گئے ہیں

عداوتیں ہیں درمیان سینوں میں نفرتیں لیے ہوئے

حسد کی آگ دھکائے ہوئے ہم  آگے بڑھ گئے ہیں

تم نے یہ کہا تھا مجھے میں نے یہ سمجھایا تھا تمھیں 

اعتماد اٹھ گیا تو بس سمجھ لو کہ مسئلے بڑھ گئے ہیں 

حسد شک سے عزت گنوائی جاتی ہے کمائی نہیں جاتی

دانش کھو کر اعتبار جیسے ششے میں بال پڑے بڑھ گئے ہیں

جو دو وقت روٹی نہ دے سکے ایسے دہقان پہ لعنت ایسی زراعت پہ تف

جو مظلوم کو انصاف نہ دے ایسی قاضی پہ لعنت ایسی عدالت پہ تف

یہاں محفوظ نہ ہو کسی کی عزت کسی کو میسر نہ ہو امن و چین

وہاں کے کار ہائے سرکار و حکمران پہ لعنت ایسی ریاست پہ تف

یہاں میسر نہ ہو کسی کو روزگار یہاں کے تاجر ہو خر کار

دانش ایسے صاحب ثروت پہ لعنت ایسی صنعت و صناعت پہ تف

جس ملک کی فوج کے جنرل دوسرے ملک کے غلام ہوجائیں

وہ کیا کریں گے تحفظ وطن جو اک دھمکی میں نیلام ہو جائیں

جن کی اولادیں جس وطن میں رہنا نہ چاہیں

وہی اس وطن کی حکومت چاہیں

بکنے والے اب رہنما بن بیٹھے

وطن کو میرے لوٹا بیٹھے

جو گدا گر تھے کل تک

مالک ہیں اب مل تک

فکر ان کو نہیں کچھ وطن کی

فکر ان کو فقط اپنے بطن کی

دانش یہ خود کو محب وطن کہتے ہیں

جن کو اغیار اپنا سرمایہ تن کہتے ہیں


ساتھ وہ کیا دیتا میرا جو کرب آشنا نہیں

کھونے کا کیا غم جو کبھی میرا تھا نہیں

میرے ساتھ وہ دیتا بھی تو کیسے دیتا

اتنا تو درد سہنے کا اسے حوصلہ نہیں

کرنا محبت بھی اتنا آسان تو نہیں ہے

وہ درد بانٹنے پڑتے ہیں جو کوئی سہتا نہیں

وہ کیسے اپنا سکتا ہے بدنامی کے بعد

رسم و رواج سے بغاوت کا حوصلہ نہیں

زندگی میں یہ جو تلخی سی ہے دانش

اس کا سبب بس اک وہ واقعہ نہیں

کرب کی کوئی شام ایسی بھی تو نہیں تھی
زندگی گزارنے کی کوئی سعی بھی تو نہیں تھی
اس نے تو اک حرف مدعا کیا کہا محبت کا
میسر پھر کوئی وصل کی گھڑی بھی تو نہیں تھی
ہم تری آرزو ہی کر لیتے اس زندگی میں دانش
معتبر مگر کوئی عادت تیری ایسی بھی تو نہ تھی

کچے ناہموار راہوں پہ دل ہموار تھے
دوسروں کا احترام تھا
بزرگوں کا اکرام تھا
بچوں پہ سب شفیق تھے
وہ زمانے بھی کیا انیق تھے

میرا دور ہموار راہوں کا
بسیرا ہوا ہے گمراہوں کا
دل ناہموار ہیں
لگتا سارے اخلاقی بیمار ہیں
دلوں میں کدورتیں ہیں
دلوں میں نفرتیں ہیں
میں کس دور میں جی رہا ہوں
راہیں ہوئی ہیں ہموار
معاشرت ہوئی ہے بیکار
نفرتوں کا پھیلا ہے غبار
اٹھ چلا ہے اب تو اعتبار
دانش یہ کیا ہوا ہے
ہموار راہوں پہ دل نا ہموار ہے
کیا انسان کو انسان سے پیار ہے
دانش اب کس کو کیا چاہیے کوئی
اب شک پہ میرا اعتبار ہے

Previous Older Entries