کیا توہین تب نہیں ہوتی
05 فروری 2023 تبصرہ کریں
in غزل
کیا توہین تب نہیں ہوتی
جب یہ ماں ڈالروں کے عوض بیچ آتے ہیں
جب ظلم پے چپ ساد لتیے ہیں
کیا توہین تب نہیں ہوتی
جب دشمن کے آگے ہتھیار ڈال آتے ہیں
فخر سے اپنوں کی فحش فلم بناتے ہیں
کیا توہین تب نہیں ہوتی
جب ظلم پے عدالتیں خاموش تماشائی ہوں
قاضی مال بناتے ہوں انصاف بیچتے ہوں
کیا توہین تب نہیں ہوتی
جب فوج اپنوں پہ چڑھ دوڑی ہو
دشمن کے خوف سے بھگوڑی ہو
کیا توہین تب نہیں ہوتی
جب باج سبیل جسکا دھندہ ہو
حرام خور جرنیلوں جیسا بندہ ہو
کیا توہین تب نہیں ہوتی
جب فرض پے غرض حاوی ہو
جب احتساب سے ہر کوئی باغی ہو
کیا توہین تب نہیں ہوتی
کیا زبان بندی سے حا لات بدلیں گے
کیا قیدی کے کبھی پھر خیالات بدلیں گے
کیا توہین تب نہیں ہوتی
کیا زبان بندی عزت بڑھتی ہے
دل افسردہ
01 جنوری 2023 تبصرہ کریں
in غزل
میں فاصلے طے کر چکا تنہا اب تو
ہمراہی راستے کر چکا جدا اب تو
کوئی آس کوئی امید ملنے کی باقی نہیں
ہوں دل کو بہت یہ سمجھا چکا اب تو
تو نے اپنی ہی منائی ہر بات ہر پل
نہیں ماننی میری بات سدا اب تو
دل زخم زخم آبلہ پا ہو جیسے کوئی
رستے ہیں باتوں کے زخم تازہ اب تو
اب دل میں تری محبت کروٹ نہیں لیتی
ہوں دل سے درد محبت مٹا چکا اب تو
ایسا لگتا ہے ہم غیر ہیں انجان ہیں
ہر رشتہ ہی ختم سا ہوتا جاتا اب تو
دانش بھی خاموش راہوں کا مسافر ہے
تنہائی کی لیں گے ہم عادت بنا اب تو
چہرے
22 اکتوبر 2022 تبصرہ کریں
in غزل
چہرے پہ چہرے سجائے ہوئے لوگ
اندرون تاریک تر کو چھپائے ہوئے لوگ
ہمسفر ہیں مگر دل کہیں اور لگائے ہوئے لوگ
دانش کیا سمجھے غیروں کے سمجھائے ہوئے لوگ
اعتبار
20 ستمبر 2022 تبصرہ کریں
in غزل
اک ستم یہ بھی ہے دلوں میں فاصلے بڑھ گئے ہیں
اب تو جدائی کے لیے ہمارے حوصلے بڑھ گئے ہیں
عداوتیں ہیں درمیان سینوں میں نفرتیں لیے ہوئے
حسد کی آگ دھکائے ہوئے ہم آگے بڑھ گئے ہیں
تم نے یہ کہا تھا مجھے میں نے یہ سمجھایا تھا تمھیں
اعتماد اٹھ گیا تو بس سمجھ لو کہ مسئلے بڑھ گئے ہیں
حسد شک سے عزت گنوائی جاتی ہے کمائی نہیں جاتی
دانش کھو کر اعتبار جیسے ششے میں بال پڑے بڑھ گئے ہیں
13 جولائی 2022 تبصرہ کریں
in غزل
جو دو وقت روٹی نہ دے سکے ایسے دہقان پہ لعنت ایسی زراعت پہ تف
جو مظلوم کو انصاف نہ دے ایسی قاضی پہ لعنت ایسی عدالت پہ تف
یہاں محفوظ نہ ہو کسی کی عزت کسی کو میسر نہ ہو امن و چین
وہاں کے کار ہائے سرکار و حکمران پہ لعنت ایسی ریاست پہ تف
یہاں میسر نہ ہو کسی کو روزگار یہاں کے تاجر ہو خر کار
دانش ایسے صاحب ثروت پہ لعنت ایسی صنعت و صناعت پہ تف
23 جون 2022 تبصرہ کریں
in غزل
جس ملک کی فوج کے جنرل دوسرے ملک کے غلام ہوجائیں
وہ کیا کریں گے تحفظ وطن جو اک دھمکی میں نیلام ہو جائیں
جن کی اولادیں جس وطن میں رہنا نہ چاہیں
وہی اس وطن کی حکومت چاہیں
بکنے والے اب رہنما بن بیٹھے
وطن کو میرے لوٹا بیٹھے
جو گدا گر تھے کل تک
مالک ہیں اب مل تک
فکر ان کو نہیں کچھ وطن کی
فکر ان کو فقط اپنے بطن کی
دانش یہ خود کو محب وطن کہتے ہیں
جن کو اغیار اپنا سرمایہ تن کہتے ہیں
12 جولائی 2021 تبصرہ کریں
in غزل
ساتھ وہ کیا دیتا میرا جو کرب آشنا نہیں
کھونے کا کیا غم جو کبھی میرا تھا نہیں
میرے ساتھ وہ دیتا بھی تو کیسے دیتا
اتنا تو درد سہنے کا اسے حوصلہ نہیں
کرنا محبت بھی اتنا آسان تو نہیں ہے
وہ درد بانٹنے پڑتے ہیں جو کوئی سہتا نہیں
وہ کیسے اپنا سکتا ہے بدنامی کے بعد
رسم و رواج سے بغاوت کا حوصلہ نہیں
زندگی میں یہ جو تلخی سی ہے دانش
اس کا سبب بس اک وہ واقعہ نہیں
12 جولائی 2021 تبصرہ کریں
in غزل
کرب کی کوئی شام ایسی بھی تو نہیں تھی
زندگی گزارنے کی کوئی سعی بھی تو نہیں تھی
اس نے تو اک حرف مدعا کیا کہا محبت کا
میسر پھر کوئی وصل کی گھڑی بھی تو نہیں تھی
ہم تری آرزو ہی کر لیتے اس زندگی میں دانش
معتبر مگر کوئی عادت تیری ایسی بھی تو نہ تھی
07 اپریل 2021 تبصرہ کریں
in غزل
کچے ناہموار راہوں پہ دل ہموار تھے
دوسروں کا احترام تھا
بزرگوں کا اکرام تھا
بچوں پہ سب شفیق تھے
وہ زمانے بھی کیا انیق تھے
میرا دور ہموار راہوں کا
بسیرا ہوا ہے گمراہوں کا
دل ناہموار ہیں
لگتا سارے اخلاقی بیمار ہیں
دلوں میں کدورتیں ہیں
دلوں میں نفرتیں ہیں
میں کس دور میں جی رہا ہوں
راہیں ہوئی ہیں ہموار
معاشرت ہوئی ہے بیکار
نفرتوں کا پھیلا ہے غبار
اٹھ چلا ہے اب تو اعتبار
دانش یہ کیا ہوا ہے
ہموار راہوں پہ دل نا ہموار ہے
کیا انسان کو انسان سے پیار ہے
دانش اب کس کو کیا چاہیے کوئی
اب شک پہ میرا اعتبار ہے
حالیہ تبصرے